How To Teach Online

7 tips on how to teach online

Dm Learning Tube

introduction of madani qaidah course

Latest Posts

Monday 20 July 2020

قربانی کے ضروری مسائل*⏪

Farooq Ahmed

السلام علیکم




دالاضحی قریب آرہی ہے تو اس حوالے سے یہ آرٹیکل پیش خدمت ہے۔

*
* ٦  👇👇


*⏪⏪قربانی کے ضروری مسائل*⏪


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلوٰۃ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرسَلِیْنَ اَمّا بَعْدُ فَاَ عُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّ حِیْم ط

*..صَلُّواعَلَی الْحَبیب!           صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد*

*’’قربانی واجب ہے‘‘کے بارہ حروف کی نسبت سے قربانی کے 12مدنی پھول*👇👇👇👇👇


ماخوذ از رسالہ ’’اَبْلَق گھوڑے سوار‘‘

تصنیف:شیخِ طریقت ،امیرِ اَہلسنّت ،بانیء دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطارقادِری رضَوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَا.  .
⏬⏬⏬⏬⏬⏬.⏬⏬ 1⃣⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬

 *ہر عاقل،بالغ مقیم مسلمان مردو عورت مالکِ نصاب پر قربانی واجب ہے(فتاوٰی عالمگیری ج 5 ص292 کوئٹہ)*



⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬2⃣⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬

-👈 *عام طور پر یہ رَواج ہے کہ پورے گھر کی طرف سے ایک بکرا قربان کر دیا جا تا ہے حالانکہ صاحبِ نصاب ہونے کی بناء پر گھر کے کئی افراد پر قُربانی واجب ہوتی ہے ان سب کی طرف سے الگ الگ قُربانی کی جائے* (از افادات:فتاوٰی رضویہ جدید ج20ص304)


  • 🔽🔽🔽3⃣🔽🔽🔽


  • *-گائے(بھینس) اور اُونٹ میں سات قربانیاں ہو سکتی ہیں* ۔(فتاوٰی عالمگیری ج5 ص304 کوئٹہ)
  • ⏬⏬⏬⏬4⃣⏬⏬⏬⏬


  • - *نابالغ کی طرف سے اگرچہ واجب نہیں مگر کر دینا بہتر ہے اور اجازت بھی ضروری نہیں ۔بالغ اولاد یا زَوجہ کی طرف سے قُربانی کرنا چاہے تو اُن سے اجازت طلب کرے اگر اُن سے اجازت لیے بغیر کر دی تو ان کی طرف سے واجب ادا نہیں ہو گا* (فتاوٰی عالمگیری ج5ص304کوئٹہ،بہارِ شریعت حصہ15ص134مدینۃ المرشد بریلی شریف)اجازت دو طرح سے ہوتی ہے (1)صراحتہً مَثَلاً ان میں سے کوئی واضح طور پر کہہ دے کہ میری طرف سے قُربانی کر دو(2) دَلالۃً یعنی انڈر اِسٹُوڈ ہو مَثَلاً یہ اپنی زَوجہ یا اولاد کی طرف سے قُربانی کرتا ہے اور انہیں اس کا علم ہے اور وہ راضی ہیں۔(فتاوٰی اہلسنت غیر مطبوعہ)



  1.  .  .  .  .  .  .  .   ⏬⏬⏬⏬⏬5⃣⏬⏬⏬⏬⏬
  2.  *قُربانی کے وقْت میں قُربانی کرنا ہی لازِ م ہے کوئی دُوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی مَثَلاً بجائے قُربانی کے بکرا یا اس کی قیمت صَدَقہ کر دی جائے یہ ناکافی ہے* (فتاوٰی عالمگیری ج5ص293)


 .  .  .  .  .  .  .  ⏬⏬⏬⏬⏬⏬6⃣⏬⏬⏬⏬⏬⏬ 

*_قربانی کے جانور کی عمر:اُونٹ پانچ سال کا ،گائے دو سال کی ،بکرا (اس میں بکری ،دُنبہ، دُنبی،بھیڑ اور بھیڑی شامل ہیں )ایک سال کا ۔اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں ،زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے ۔ہاں دُنبہ یا بھیڑ کا چھ مہینے کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے_* (دُرِّ مختار ج9ص533 دارالمعرفۃ بیروت) یاد رکھیے!مطلقاً چھ ماہ کے دُنبے کی قربانی جائز نہیں اُس کا اتنا فربہ اور قد آور ہونا ضروری ہے کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا لگے ۔اگر6ماہ بلکہ سال میں ایک دن بھی کم عمر کا دُنبے یا بھیڑ کا بچہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا نہیں لگتا تو اُس کی قربانی نہیں ہو گی۔

 .  .⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬7⃣ ⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬

*-قربانی کا جانور بے عیب ہونا ضروری ہے اگر تھوڑا سا عیب ہو(مثلاً کان چِرا ہو ا ہو یا کان میں سوراخ ہو)تو قربانی مکروہ ہو گی اور زیادہ عیب ہو تو قربانی نہیں ہو گی_*(دُرِّ مختار مَعَہ رَدُّ المحتار ج9ص536،بہارِ شریعت حصہ15ص140)

⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬8⃣ *⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬

-جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اُس کی قربانی جائز ہے اور اگر پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو ،اُس کی قربانی ناجائز ہے*۔(فتاوٰی عالمگیری ج5ص297 کوئٹہ)

⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬9⃣⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬

 *ایسا پاگل جانورجو چَرتا نہ ہو ،اتنا کمزور کہ ہڈّیوں میں مغز نہ رہا،اندھا یا ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو ،ایسا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو ،ایسا لنگڑا جو خود اپنے پاؤں سے قربان گاہ تک نہ جا سکے،کان،دُم یا چکّی ایک تہائی(3/1)سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں ،ناک کٹی ہوئی ہو،دانت نہ ہوں،تھن کٹے ہوئے ہوں ان سب کی قربانی ناجائز ہے بکری میں ایک تھن کا خشک ہونا اور گائے ،بھینس میں دو کا خشک ہونا ناجائز ہونے کے لیے کافی ہے*  (دُرِّ مختار مَعَہ رَدُّ المحتار ج9ص535،بہارِ شریعت حصہ15 ص140)

⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬🔟⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬

 - *بہتر یہ ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے جبکہ اچھی طرح ذبح کرنا جانتاہواوراگر اچھی طرح نہ جانتا ہو تو دوسرے کو ذبح کرنے کا حکم دے مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی وہاں حاضر ہو* ۔(فتاوٰی عالمگیری ج5ص300 کوئٹہ)

⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬1⃣1⃣ ⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬

*-قربانی کی اور اس کے پیٹ میں سے زندہ بچہ نکلا تو اسے بھی ذَبح کر دے اور اسے کھایا جا سکتا ہے اور مَرا ہوا بچہ ہوا ہو تو اسے پھینک دے کہ مُردار ہے* ۔(بہارِ شریعت حصہ15 ص146 مدینۃ المرشد بریلی شریف)(مرا ہوا بچہ نکلا تب بھی قربانی ہو گئی اور گوشت میں بھی کسی قسم کی کراہیت نہیں)https://chat.whatsapp.com/6lh66TPlNOUE9gSIk6sNz2

⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬1⃣2⃣ ⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬⏬

*دوسرے سے ذَبح کروایا اور خود اپنا ہاتھ بھی چھری پر رکھ دیا کہ دونوں نے مل کر ذَبح کیا تو دونوں پر بِسْمِ اللّٰہ کہنا واجب ہے ۔ایک نے بھی جان بوُجھ کر اللّٰہ کا نام ترک کیا یا یہ خیال کر کے چھوڑ دیا کہ دوسرے نے کہہ لیا ہے مجھے کہنے کی ضرورت نہیں دونوں صورتوں میں جانور حلال نہ ہوا۔* (در مختار ج9ص551دار لمعرفۃ بیروت)

www.dawetislami.net

Tuesday 14 July 2020

قربانی کے احکام مسائل اور اہمیت* قسط نمر ٣

Farooq Ahmed

*قربانی کےاحکام و مسائل اور اہمیت* قسط نمر ٣  👇👇👇

*علم دین حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں اور ثواب کی نیت سے شیر کریں۔آللہ سے دعا اللہ ہمیں پڑھنیں سنیں سے ذیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے*

*..صَلُّواعَلَی الْحَبیب!           صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد*

 *قُربانی کے 6 حُروف کی نسبت سے قربانی کی فضیلت پر چھ فرامینِ مُصْطفٰی :*

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اور بہنو !ایامِ قربانى مىں حُصولِ ثواب کی خاطر  قربانى کرنا ا ىسى نیکی ہے جس کا کوئى اور بدل نہىں۔لہٰذاثواب کمانےاور رِضائے الٰہی کی خاطر قربانی کرنے کی نیَّت سے قربانی کے چھ حروف کی نسبت سے قربانی کی فضلیت واَہْمیَّت پر چھ فرامین ِ مُصْطفیٰ آپ کے گوش گزارکرتا ہوں۔

 (1) *حضرتِ سَیِّدُنا زید بن اَرْقم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  فرماتے ہیں* : *صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوان نے عرض کیا،'' یارسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم!یہ قربانیاں کیا ہیں؟'' آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا،'' تمہارے باپ ابراہیم علیہِ السَّلام کی سُنَّت ہیں ۔'' صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوان نے عرض* کیا ،'' *یارسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم! ان میں ہمارے لئے کیا ثواب ہے؟* '' *فرمایا،'' ہربال کے بدلے ایک نیکی ہے ۔''عرض کیا ، ''اور اُون میں ؟''فرمایا،'' اس کے ہربال کے بدلے بھی ایک نیکی ہے۔* '' (ابن ماجہ ،کتاب الاضاحی ،باب ثواب الاضحیہ ،رقم ۳۱۲۷ ،ج۳ ،ص ۵۳۱)

*(2) ایامِ قربانى (یعنی ۱۰ تا ۱۲ ذُو الْحِجَّہ) مىں انسان کا کوئى بھى عمل اللہ تعالىٰ کى بارگاہ مىں قربانى کے جانور کا خون بہانے سے زىادہ محبوب نہىں ہے، اور قیامت کے روز قُربانى کا ىہ جانور اللہ تعالىٰ کى بارگاہ مىں اپنے سىنگوں، بالوں اور کُھروں سمىت حاضر ہوگا، اور بلاشُبہ قربانى کے جانور کا خون زمىن پر گرنے سے پہلے اللہ تعالىٰ کى بارگاہ مىں مرتبۂ  قَبُولیَّت کو پالىتا ہے،تو اے مومنو! خُوش دِلى سے قُربان کىا کرو۔* (تِرمِذی ج٣ص١٦٢حدیث ١٤٩٨)

*(3) ایک اور فرمان: جس نے خُوش دِلی سے طالبِ ثواب ہو کر قربانی کی تو  وہ(قربانی ) آتشِ جہنم سے حِجاب (روک)ہو جائے گی۔* ‘‘ (المعجم الکبیر''،الحدیث:۲۷۳۶،ج۳،ص۸۴)

*(4)جو روپیہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں۔‘‘*

                    (المعجم الکبیر،الحدیث:۱۰۸۹۴،ج۱۱،ص۱۴۔۱۵)
(5)

*ارشاد فرمایا :اے فاطمہ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  ) !اُٹھو اپنی قُربانی کے جانور کے پاس جاؤ اور اسے لے کر آؤ  کيونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے پر تمہارے پچھلےگناہ بخش دئيے جائيں گے۔ اُنہوں نے عرض کی:''یا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم! يہ انعام ہم اہلِ بیت کے ساتھ خاص ہے يا ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے؟’’تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''بلکہ ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے۔‘‘*(المستدرک،کتاب الاضاحی، باب یغفر لمن یضحی۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۷۶۰۰،ج۵،ص ۳۱۴)

(6) *جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘* (سنن ابن ماجہ،کتاب الأضاحی،باب الأضاحی واجبۃ ھی أم لا،الحدیث:۳۱۲۳ ،ج۳، ص۵۲۹)

*قربانی کی اہمیت*

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو  اور بہنو !جو لوگ قربانی کی اِسْتِطاعَت (یعنی طاقت )* *رکھنے کے باوُجُود اپنی @واجِب قربانی ادا نہیں کرتے، ان کے لیے لمحۂ  فکریہ ہے ، اوَّل یِہی خَسارَہ (یعنی نُقْصان) کیا کم تھا کہ قربانی نہ کرنے سے اتنے بڑے ثواب سے محروم ہوگئے مزید یہ کہ وہ گناہ گار اور جہنَّم کے حَقْدار بھی ہیں۔

*قُربانی واجِب ہونے کیلئے کتنا مال ہونا چاہئے*

یادرہے ہربالِغ ،مُقیم، مسلمان مردو عورت ، مالکِ نصاب پر قربانی واجِب ہے۔ (عالمگیری ج٥ص٢٩٢) مالکِ نصاب ہونے سے مُراد یہ ہے کہ اُس شخص کے پاس ساڑھے باوَن تولے چاندی یا اُتنی مالیَّت کی رقم یا اتنی مالیَّت کا تجارت کا مال یا اتنی مالیَّت کا سامان ہو اور اُس پر اللہ عزوجل یا بندوں کا اِتنا قَرضہ نہ ہو جسے ادا کر کے بیان کردہ  نصاب باقی نہ رہے۔ فُقہائے کرامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلام فرماتے ہیں: حاجتِ اَصلِیّہ (یعنی ضَروریاتِ زندگی) سے مُراد وہ چیزیں ہیں جن کی عُمُوماً انسان کو ضَرورت ہوتی ہے اور ان کے بِغیر گزر اوقات میں شدیدتنگی ودُشواری محسوس ہوتی ہے جیسے رہنے کا گھر ، پہننے کے کپڑے، سُواری ، علمِ دین سے متعلِّق کتابیں اور پیشے سے متعلِّق اَوزار وغیرہ۔*  (الھدایۃ ج١ص٩٦)

https://chat.whatsapp.com/6lh66TPlNOUE9gSIk6sNz2
*

Sunday 12 July 2020

قربانی کی اہمیت

Farooq Ahmed

https://farooqjarral.blogspot.com/?m=1

*قربانی کےاحکام و مسائل اور اہمیت* قسط نمر ٢  👇👇👇

علم دین حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں اور ثواب کی نیت سے شیر کریں۔آللہ سے دعا اللہ ہمیں پڑھنیں سنیں سے ذیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے*

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!           صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

*وسوسہ:*

        *میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوکہ حضرت سَیِّدُنا ابراہیم  خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  نے مَحض خواب کی بنا پرہی اپنے بیٹے  حضرت سَیِّدُنا اسماعیل عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کو ذبح کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ کیا آ ج بھی اگر کوئی خواب میں اپنی اولاد کو ذبح کرتا دیکھے توکیااسے بھی اس خواب پر عمل کرنا  ضروری ہوگا۔؟*

*جواب وسوسہ:*

        اس کا جواب یہ ہے کہ انبیائے  کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کےخواب سچے ہوتے ہیں انہیں اپنے خَواب پر عمل کرنا لازِم ہوتا ہے جبکہ غیرِ نبی کاخواب شریعت میںحُجَّت یعنی دلیل  نہیں ہوتا ۔

*انبیاء کرام کے خواب  کی تین قِسمیں :*

انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلام کے خواب تین طرح کے ہوتے ہیں

 ۔(1) *جو خواب دیکھا جائے وہی بِعَیْنِہ واقع ہو* جیسے نبیِّ کریم،رؤ فٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمنے  مدینۂ طیبہ میں خواب دیکھا ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم اپنے اصحاب کے ہمراہ  مکۂ مکرمہ تشریف لے گئے اور صحابۂ  کرام علیہم الرضوان نے سر مُنڈوائے  اور بعض نے بال کٹوائے ،آپ کا یہ خواب ایک سال بعد اسی طرح سچا ہوا جیسے دیکھا تھا۔

لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّۚ-لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَۙ-مُحَلِّقِیْنَ رُءُوْسَكُمْ وَ مُقَصِّرِیْنَۙ-لَا تَخَافُوْنَؕ-

ترجمہ کنزالایمان : *بیشک اللّٰہ نے سچ کردیا اپنے رسول کا سچّا خواب ،بیشک تم ضرور مسجدِ حرام میں داخل ہوگے اگر اللّٰہ چاہے امن و امان سے اپنے سروں کے ،بال منڈاتے یا ، ترشواتے بے خوف(پ ۲۶،الفتح ،۲۷)*

 (2) *خواب میں بعض چیزوں سے تَشْبِیْہ دی جائے جس چیز کو خواب میں دکھایا گیا ہو اسی کا وُقُوع نہ ہو، بلکہ اس کی کوئی نہ کوئی تاویل ہو اور وُقُوع مُشابہ ہو* جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب۔اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(۴)

*ترجَمۂ کنز الایمان:* *یاد کرو جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے دیکھا ۔ (پ ۱۲یوسف آیت ۴)*

        خواب میں آپ نے چاند اور سورج اور گیارہ ستارے سجدہ کرتے دیکھے لیکن واقع (حقیقت)میں ان چیزوں نے آپ کو سجدہ نہیں کیا بلکہ آپ کے خواب کوا س طرح سچا کر کے دکھایا۔

وَ خَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًاۚ-وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ٘-قَدْ جَعَلَهَا رَبِّیْ حَقًّاؕ-

*ترجَمۂ کنز الایمان:* اس کے لئے سجدے میں گرے ،اور یوسف نے کہا اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بیشک اُسے میرے رب نے سچّا کیا ۔(پ ۱۳۔سورۃ یوسف ، ۱۰۰)

ماں باپ خواب میں چاند سورج کی شکل میں دکھائے گئے اور گیارہ بھائی ، گیارہ ستاروں کی صورت میں، خواب سچا ہوا کہ سب نے آپ کو سجدہ ٔتعظیمی کیا، جو پچھلی شریعتوں میں جائز تھا، جبکہ ہماری شریعت میں حرام ہے، یاد رہے کہ عبادت کا سجدہ ہر شریعت میں اللہ تعالٰی کے بغیر کسی اور کے لیے جائز نہیں تھا۔

(تفسیر کبیر ج ۲۶،ص ۱۵۷) (تذکرۃ الانبیاء) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام   کا خواب

(3) *خواب میں صرف امتحان ہو اس کا وُقُوع مقصود نہ ہو جیسے حضرت ابراہیم علیہ السَّلام نے خواب میں بیٹے کو ذَبْح کرتے ہوئے دیکھا، یہ صرف امتحان تھا آپ نے اپنے امتحان پر عمل کرلیا لیکن اللہ عَزَّ  وَجَلَّ   نے حضرت سَیِّدُنا اسماعیل علیہِ السَّلام کو بچالیا اور فدیہ دے دیا ۔ (تذکرۃ الانبیاء)*

*میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اور بہنوں !اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اپنے برگزیدہ بندوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے ،جو جس قدر مُقرَّب ومحبوب ہوتا ہے اس پر آزمائش  بھی زیادہ آتی ہے، تاکہ یہ  نُفُوسِ قُدْسِیہ اس کی رضاپر راضی رہتے ہوئےآنے والی آزمائشوں پر صبر کرکے بطورِ انعام اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی بارگاہ سے بُلند مَراتِب حاصل کرسکیں۔* *حضرت سَیِّدُنا ابرہیم عَلَیْہِ السَّلَام  کو اپنے فرزند حضرت سَیِّدُنا اسماعیل  عَلَیْہِ السَّلَام کے ذبح کرنے کا حکم دینا بھی  بطورِ آزمائش ہی تھا،آپ عَلَیْہِ السَّلَام  امتحان میں ثابت قدم رہے اور رِضائے الٰہی پر راضی رہتے ہوئے اپنے فرزند کو ذَبْح کرنے کا ارادہ فرمالیا تو اللہعَزَّ  وَجَلَّ   کو آپ  کی یہ ادا ایسی  پسند آئی کہ ہر سال  مسلمانوں پر اس کوواجب کردیا۔اورآج پوری دنیا میں  مسلمان سُنَّتِ ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے   قربانی کےاَہَم  فریضے کو اَنجام دیتے ہیں ۔*

نورِ نَبُوّت کی ضَوفِشانیاں

سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمکے اعلانِ نَبُوَّت سے قَبل اہلِ عَرَب کا دین یوں تو دینِ ابراہیمی عَلَیْہِ السَّلَام  تھا مگر اس کی اصل صورت بِالکل بدل دی گئی تھی۔ توحید کی جگہ شرک نے لے لی تھی۔مگر جب سرورِکائنات ،مَنْبعِ اَنوار وتجلّیات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کا ظُہور ہوا تو کُفْروشِرک کی ساری ظلمتیں کافُور ہوگئیں ،چہار سُو مذہبِ اسلام سے روشنی ہوگئی اورلوگ شرک کرنے،بیٹیوں کو زندہ درگور کرنےاور چڑھاوے کے نام پرجانور ذَبْح کرنے جیسی خرافات  کو چھوڑکر دامن ِ اسلام سے وابستہ ہوگئے

*۔قرآنِ پاک میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنےپیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کواپنی رضاکیلئے نماز پڑھنے اور قُربانی کرنے کا  حکم دیتے ہوئے ارشادفرماتاہے :*
*فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ(۲)*

ترجَمۂ کنز الایمان: *توتم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو  اور قربانی کرو۔(پ۳۰،الکوثر:۲)*

*حضرت سَیِّدُناسعید بن جُبَیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اس آیتِ مُبارکہ کا شانِ نُزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :یہ آیت حُدیبیہ کے دن نازل ہوئی،حضرت جبریل ِ امین عَلَیْہِ السَّلَام آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس تشریف لائے اور  کہا : آپ نحر کیجئے اور واپس تشریف لے جائیے ۔تو نبیِّ کریم ، روفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم اُٹھے اورقربانی سے مُتعلِّق خُطْبہ ارشاد فرمایا اور دورَکْعت نماز ادافرماکر قُربانی کے اُونٹوں کی جانب مُتوجّہ ہوئے اور اُنہیں نَحر کیا ۔حضرت سَیِّدُناابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: اس آیتِ مبارکہ  سے مراد فرض نماز  اور عیدُ الْاَضْحٰی کے دن جانور ذَبْح کرنا ہے۔(تفسیر در منثور ،ج۸، ص۶۵۱)*

https://chat.whatsapp.com/6lh66TPlNOUE9gSIk6sNz2

Tuesday 7 July 2020

قربانی خوش دلی سے کرنی چاہے

Farooq Ahmed

  • *حضورنبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےفرمایا:* (مَاعَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ اَحَبُّ اِلَى اللَّهِ مِنْ اِهْرَاقِ الدَّمِ، اِنَّها لَتَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَاَشْعَارِهَربا وَاَظْلَافِهَا،وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ اَنْ يَقَعَ مِنَ الْاَرْضِ،فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا) ترجمہ: یعنی دس(10) ذوالحجہ میں ابنِ آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے)سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانوربروزِ قیامت اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل اللہتعالٰی کے ہا ں قبول ہوجاتا ہے لہٰذا اسے خوش دلی سے کرو۔(ترمذی،ج3،ص162،حدیث:1498)


*قربانی کیاہے؟*


:مخصوص ایّام میں،مخصوص جانوروں کو بہ نیّت تَقَرُّب(یعنی ثواب کی نیت سے) ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔(ماخوذ ازبہار شریعت،ج3،ص327)
*قربانی کے دن،قربانی  کرنے سے زیادہ کوئی عمل اللہ عَزَّوَجَلَّ کو محبوب نہیں اور جو پیسہ قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی دوسرا روپیہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پیارا نہیں،اسے خوش دلی کے ساتھ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (ترمذی،ج 3،ص   162، حدیث :1498، معجم کبیر،ج11،ص14، حدیث:10894)

ہر عضو کے بدلے اجر:حضرت علّامہ علی قاریعلیہ رحمۃ اللہ الوَالی  لکھتے ہیں:(یوم النحر)عید کے دن عبادات میں سے افضل  عباد ت قربانی کا خون بہانا ہے اور یہ قربانی کاجانور قیامت کےدن اپنے تمام اَعْضاکے ساتھ،بغیر کسی کمی کے ویسے ہی آئےگا جیسے دنیا میں تھا،تاکہ اس کے ہر عضو کے بدلے میں اسے اجر (ثواب)ملےاور  *وہ جانور اس کے لئے پل صراط کی سواری ہوگا*

*۔یومُ النحر کو قربانی ہی کیوں خاص؟*:اس کے بارے میں فرماتے ہیں ۔’’ہر دن کسی عبادت کے ساتھ خاص ہے  اور یومُ النحر ایسی عبادت کے ساتھ خاص  ہے جسےحضرت ابراہیم علیہ السَّلامنےادا کیا یعنی قربانی کرنااورتکبیرپڑھنا۔(یعنی تکبیرات تشریق)اور اگر انسان کےفدیہ میں  کوئی چیز جانور کو ذبح کرنے سے زیادہ افضل ہوتی  تو حضرت ابراہیم علیہ السَّلام،حضرت اسماعیل علیہ السَّلام کے فدیہ میں اسے(یعنی جانور کو) ذبح نہ فرماتے۔ خوش دلی کے ساتھ قربانی کریں:حدیث مبارکہ کے الفاظ” فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا“کی شرح میں مزید فرماتے ہیں: جب تم نے جان لیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اسےقبول کرتا ہے اور اس کے بدلے میں تمہیں کثیر ثواب عطا فرماتا ہے تو تمہیں چاہئے کہ خوشی سے قربانی کرو نہ کہ اسے ناپسند و بوجھ سمجھتے ہوئے۔(مرقاۃ المفاتیح،ج 3،ص574، تحت الحدیث:1470)

*قربانی،رقم صدقہ کرنے سے افضل کیوں ہے؟:* حکیم الامت مفتی احمدیار خان نعیمیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:قربانی میں مقصود خون بہانا ہے گوشت کھایا جائے یا نہ کھایا جائے(یعنی قربانی کرنے والاخود کھائے یا سارا ہی خیرات کردےیاکسی کو ہبہ کردے) لہٰذا اگر کوئی شخص قربانی کی قیمت ادا کردے یا اس سے دُگنا تگنا گوشت خیرات کردے،قربانی ہرگز ادا نہ ہوگی اور کیوں نہ ہو کہ قربانی حضرت خَلِیْلُ اﷲ (علیہ السَّلام) کی نقل ہے،اُنہوں نے خون بہایا تھا گوشت یا پیسے خیرات نہ کئے تھے اورنقل وہی درست ہوتی ہے جو مطابق اصل ہو۔اب کتنے بے وقوف ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں اتنی قربانیاں نہ کرو جن کا گوشت نہ کھایا جاسکے۔

*قربانی کی قبولیت*:اس بارے میں مفتی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  لکھتے ہیں:’’اور اعمال توکرنے کے بعد قبول ہوتے ہیں اورقربانی کرنے سے پہلے ہی،لہٰذا قربانی کو بیکارجان کر یاتنگ دلی سے نہ کرو ہر جگہ عقلی گھوڑے نہ دوڑاؤ۔(مراۃالمناجیح،ج2،ص375ملخصاً)

https://chat.whatsapp.com/6lh66TPlNOUE9gSIk6sNz2

Farooq Ahmed

*حضورنبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےفرمایا:* (مَاعَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ اَحَبُّ اِلَى اللَّهِ مِنْ اِهْرَاقِ الدَّمِ، اِنَّها لَتَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَاَشْعَارِهَا وَاَظْلَافِهَا،وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ اَنْ يَقَعَ مِنَ الْاَرْضِ،فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا) ترجمہ: یعنی دس(10) ذوالحجہ میں ابنِ آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے)سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانوربروزِ قیامت اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل اللہتعالٰی کے ہا ں قبول ہوجاتا ہے لہٰذا اسے خوش دلی سے کرو۔(ترمذی،ج3،ص162،حدیث:1498)

*قربانی کیاہے؟*

:مخصوص ایّام میں،مخصوص جانوروں کو بہ نیّت تَقَرُّب(یعنی ثواب کی نیت سے) ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔(ماخوذ ازبہار شریعت،ج3،ص327)
*قربانی کے دن،قربانی  کرنے سے زیادہ کوئی عمل اللہ عَزَّوَجَلَّ کو محبوب نہیں اور جو پیسہ قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی دوسرا روپیہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پیارا نہیں،اسے خوش دلی کے ساتھ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (ترمذی،ج 3،ص   162، حدیث :1498، معجم کبیر،ج11،ص14، حدیث:10894) ہر عضو کے بدلے اجر:حضرت علّامہ علی قاریعلیہ رحمۃ اللہ الوَالی  لکھتے ہیں:(یوم النحر)عید کے دن عبادات میں سے افضل  عباد ت قربانی کا خون بہانا ہے اور یہ قربانی کاجانور قیامت کےدن اپنے تمام اَعْضاکے ساتھ،بغیر کسی کمی کے ویسے ہی آئےگا جیسے دنیا میں تھا،تاکہ اس کے ہر عضو کے بدلے میں اسے اجر (ثواب)ملےاور  *وہ جانور اس کے لئے پل صراط کی سواری ہوگا*
*۔یومُ النحر کو قربانی ہی کیوں خاص؟*:اس کے بارے میں فرماتے ہیں ۔’’ہر دن کسی عبادت کے ساتھ خاص ہے  اور یومُ النحر ایسی عبادت کے ساتھ خاص  ہے جسےحضرت ابراہیم علیہ السَّلامنےادا کیا یعنی قربانی کرنااورتکبیرپڑھنا۔(یعنی تکبیرات تشریق)اور اگر انسان کےفدیہ میں  کوئی چیز جانور کو ذبح کرنے سے زیادہ افضل ہوتی  تو حضرت ابراہیم علیہ السَّلام،حضرت اسماعیل علیہ السَّلام کے فدیہ میں اسے(یعنی جانور کو) ذبح نہ فرماتے۔ خوش دلی کے ساتھ قربانی کریں:حدیث مبارکہ کے الفاظ” فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا“کی شرح میں مزید فرماتے ہیں: جب تم نے جان لیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اسےقبول کرتا ہے اور اس کے بدلے میں تمہیں کثیر ثواب عطا فرماتا ہے تو تمہیں چاہئے کہ خوشی سے قربانی کرو نہ کہ اسے ناپسند و بوجھ سمجھتے ہوئے۔(مرقاۃ المفاتیح،ج 3،ص574، تحت الحدیث:1470)
*قربانی،رقم صدقہ کرنے سے افضل کیوں ہے؟:* حکیم الامت مفتی احمدیار خان نعیمیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:قربانی میں مقصود خون بہانا ہے گوشت کھایا جائے یا نہ کھایا جائے(یعنی قربانی کرنے والاخود کھائے یا سارا ہی خیرات کردےیاکسی کو ہبہ کردے) لہٰذا اگر کوئی شخص قربانی کی قیمت ادا کردے یا اس سے دُگنا تگنا گوشت خیرات کردے،قربانی ہرگز ادا نہ ہوگی اور کیوں نہ ہو کہ قربانی حضرت خَلِیْلُ اﷲ (علیہ السَّلام) کی نقل ہے،اُنہوں نے خون بہایا تھا گوشت یا پیسے خیرات نہ کئے تھے اورنقل وہی درست ہوتی ہے جو مطابق اصل ہو۔اب کتنے بے وقوف ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں اتنی قربانیاں نہ کرو جن کا گوشت نہ کھایا جاسکے۔
*قربانی کی قبولیت*:اس بارے میں مفتی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  لکھتے ہیں:’’اور اعمال توکرنے کے بعد قبول ہوتے ہیں اورقربانی کرنے سے پہلے ہی،لہٰذا قربانی کو بیکارجان کر یاتنگ دلی سے نہ کرو ہر جگہ عقلی گھوڑے نہ دوڑاؤ۔(مراۃالمناجیح،ج2،ص375ملخصاً)

https://chat.whatsapp.com/6lh66TPlNOUE9gSIk6sNz2

Monday 11 May 2020

قیمتی ہیروں کا ایک سبق آموز چھوٹا سا واقعہ*

Farooq Ahmed
Facebook*ایک سبق اموز حکائیت*

*قیمتی ہیروں کا ایک سبق آموز چھوٹا سا واقعہ*



کہتے ہیں،ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں کے ساتھ کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا باغ میں سے کوئی شخص سنگریزے (یعنی چھوٹے چھوٹے پتھر)پھینک رہا ہے ،ایک سنگریزہ خود اس کو بھی آکر لگا۔ اس نے خُدّام کو دوڑایا کہ جا کر سنگریزے پھینکنے والے کو پکڑکر میرے پاس حاضِر کرو، چُنانچِہ خُدّام نے ایک گنوار کو حاضر کر دیا۔ بادشاہ نے کہا: یہ سنگریزے تم نے کہاں سے حاصل کئے ؟ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا : میں ویرانے میں سیر کر رہا تھا کہ میری نظر ان خوبصورت سنگریزوں پر پڑی، میں نے ان کو جھولی میں بھر لیا، اس کے بعدپِھرتا پِھراتا اس باغ میں آنکلا اور پھل توڑنے کے لئے یہ سنگریزے استعمال کرلئے۔

بادشاہ نے کہا: تم ان سنگریزوں کی قیمت جانتے ہو ؟اس نے عرض کی : نہیں ۔ بادشاہ بولا :یہ پتھّر کے ٹکڑے دراصل انمول ہیرے تھے، جنہیں تم نادانی کے سبب ضائِع کرچکے۔اس پر وہ شخص افسوس کرنے لگا ۔مگر اب اس کا افسوس کرنا بے کار تھا کہ وہ انمول ہیرے اس کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔

*زندگی کے لمحات انمول ہیرے ہیں*

میرے پیارے اسلامی بھائیو!اسی طرح ہماری زندگی کے لمحات بھی انمول ہیرے ہیں اگر ان کو ہم نےـ بے کار ضائع کردیا تو حسرت و ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آ ئیگا ۔
*دن بھر کھیلوں میں خاک اُڑائی*
  *لاج آئی نہ ذرّوں کی ہنسی سے*

اللہ عزوجل نے انسان کو ایک مُقرَّرہ وَقت کیلئے خاص مقصد کے تحت اِس دنیا میں بھیجا ہے ۔چنانچہ *پارہ 18سورۃُ المُؤمِنُون آیت نمبر115میں ارشاد ہوتا ہے:*
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیۡنَا لَا تُرْجَعُوۡنَ ﴿۱۱۵﴾*
ترجمہ کنزالایمان* : *تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ  تمہیں بے کار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں*

‘ ‘ *خزائنُ العرفان” میں اس آیتِ مقدّسہ کے تحت لکھا ہے: اور (کیا تمہیں)آخِرت میں جزا کیلئے اٹھنا نہیں بلکہ تمہیں عبادت کیلئے پیدا کیا کہ تم پر عبادت لازم کریں اور آخِرت میں تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ تو تمہیں تمھارے اعمال کی جزا دیں۔*

*موت وحیات کی پیدائش کا سبب بیان کرتے ہوئے پارہ 29 سورۃُالملک آیت نمبر2میں ارشاد ہوتا ہے:*

الَّذِیۡ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ؕ
*ترجَمہ کنزالایمان : وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے۔*

زندگی کاوَقت تھوڑا ہے

! *مذکورہ دو آیات کے علاوہ بھی قراٰ نِ پاک میں دیگر مقامات پر تخلیقِ انسانی یعنی انسان کی پیدائش کا مقصد بیان کیاگیا ہے۔ انسان کو اس دنیا میں بَہُت مُختصر سے وقت کیلئے رہنا ہے اوراس وَقفے میں اسے قبر و حشر کے طویل ترین معاملات کیلئے تیاری کرنی ہے لہٰذا انسان کا وقت بے حد قیمتی ہے۔وَقت ایک تیز رفتار گاڑی کی طرح فَرّاٹے بھرتا ہوا جارہا ہے نہ روکے رُکتا ہے نہ پکڑنے سے ہاتھ آتا ہے، جو سانس ایک بار لے لیا وہ پلٹ کر نہیں آتا۔*
https://chat.whatsapp.com/6lh66TPlNOUE9gSIk6sNz2

Our Team

  • Syed Faizan AliMaster / Computers
  • Syed Faizan AliMaster / Computers
  • Syed Faizan AliMaster / Computers
  • Syed Faizan AliMaster / Computers
  • Syed Faizan AliMaster / Computers
  • Syed Faizan AliMaster / Computers